ملک میں جاری سیاسی صورتحال کے پیش نظر سب نظریں سپریم کورٹ پر جم گئیں جہاں ناصرف سندھ ہاؤس پر پی ٹی آئی کے حملے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے کیس کی سماعت ہونی تھی بلکہ حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس کو بھی ساتھ ہی سنا جانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سماعت سے گھنٹوں پہلے سپریم کورٹ میں گہما گہمی تھی۔ ملک بھر کا میڈیا پہلے ہی پہنچا ہوا تھا۔ سماعت ایک بجے ہونا تھی مگر اپوزیشن کی اعلیٰ قیادت بنفس نفیس نصف گھنٹہ پہلے ہی پہنچ گئی۔ کمرہ نمبر ایک وکلا اور میڈیا سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ بڑی مشکل سے اگلی نشستوں پر شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے لیے جگہ بنائی گئی۔ اس سے قبل پانامہ کیس کے دوران انہیں نشستوں پر کبھی عمران خان اور جہانگیر ترین براجمان ہوتے تھے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف بھی ایک بار کالا کوٹ پہن کر میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے ادھر ہی بیٹھے تھے۔ سماعت شروع ہونے سے پہلے وکلا اور میڈیا نے اپوزیشن رہنماؤں کو کمرہ عدالت میں بھی گھیرے میں لے رکھا تھا۔ بلاول بھٹو اور شہباز شریف وکلا اور میڈیا کے لوگوں سے نشستوں سے اٹھ کر مل رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمان مسکراتے ہوئے اپنی نشست سے ہی سب کو سلام کرتے رہے۔ سپریم کورٹ کی کوریج کرنے والے اکثر رپورٹروں نے انہیں کبھی کمرہ نمبر ایک میں نہیں دیکھا تھا۔ صحافی سماعت سے قبل مسلسل تینوں رہنماؤں سے سوالات کرتے رہے۔ ایک بار تو تنگ آ کر مولانا فضل الرحمن نے یہ بھی کہہ دیا ’یار پانچ منٹ یہاں تو آرام کرنے دو۔‘
دو وزرائے اعظم کی نااہلی اور عدلیہ بحالی سمیت ملک کی تاریخ کے بڑے بڑے فیصلے
